Orhan

Add To collaction

وحشتِ دل

وحشتِ دل از کنول اکرم قسط نمبر10

وقت کا کام ہے گزرنا اور وہ گزر رہا تھا۔۔۔ افرحہ اب مکمل طور پہ ٹھیک تھی سب ہی اس کا خیال رکھتے تھے جس کی وجہ سے اسے اپنے بابا کی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی اگر ایک رشتہ چھوٹا تھا تو بدلے میں ڈھیر سارے رشتے بھی مل گئے تھےکسی کے جانے سے زندگی رکتی نہیں چلتی رہتی ہے اور زندگی اپنے ڈگر پر رواں دواں تھی۔۔۔۔۔ ان کے پیپر سٹارٹ ہو چکے تھے اور وہ دونوں ہی آج کل پڑھائی میں بزی تھیں۔۔دونوں پڑھائی میں اچھی تھیں اس لیے ان کو کوئی مشکل نہیں آئی تیاری کرتے ہوئے۔۔۔ وہ دونوں اکٹھی یونی جاتیں اور ساتھ ہی واپس آتی ان کی پک اینڈ ڈراپ کی زمہ داری ڈرائیور کے ذمے تھی مگر کبھی کبھار درید بھی انہیں پک کر لیتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ آج ان کا آخری پیپر تھا اور آج واپسی پہ درید نے ہی انہیں پک کرنا تھا وہ باہر ہی اس کا ویٹ کر رہی تھیں اور کُچھ دیر بعد ہی وہ آگیا تھا ۔۔۔۔ سلام کے بعد وہ دونوں گاڑی میں بیٹھیں تھیں ساوی فرنٹ پہ جبکہ افرحہ پیچھے والی سیٹ پہ براجمان تھی۔۔۔۔ جی تو لیڈیز کہاں چلنا ہے آج۔۔۔۔ وہ گاڑی سٹارٹ کرتے پوچھ رہا تھا ۔ گھر جانا ہے بھائی اور کہاں ؟؟؟ جواب افرحہ کی طرف سے آیا تھا ۔۔۔۔۔ آج تم لوگوں کے پیپرز ختم ہو گئے ہیں اور دونوں کی شکل سے لگ رہا کہ اچھے ہوئے ہیں اس لیے اسی خوشی میں پہلے لنچ اور پھر شاپنگ کریں گے۔۔۔۔ درید نے انہیں آگاہ کیا ۔۔۔۔۔ سچ میں ؟؟؟ واؤ ویسے بھی میں پیپر دے دے کے بور ہو گئی ہوں یہ اچھا آئیڈیا ہے کسی اچھے سے ریسٹورینٹ چلتے ہیں ۔۔۔۔ ساوی ایکسائٹیڈ سی بولی۔۔۔۔ نہیں پہلے شاپنگ پھر لنچ۔۔۔ ابھی بارہ ہی بجے ہیں بھوک بھی نہیں اتنی ۔۔۔۔۔ افرحہ نے کہا تھا ۔۔۔۔ چلو ٹھیک ہے۔۔۔۔ جیسا تم کہو ۔۔۔۔۔ساوی نے بھی ہامی بھری اور درید ساوی کی طرف مسکرا کے دیکھتا گاڑی مال کی طرف موڑ گیا ۔۔۔ دو گھنٹے لگاتار شاپنگ کے بعد ان دونوں نے صرف چند جوڑے ہی خریدے تھے اور اسی میں درید کی بسس ہو گئی تھی کیونکہ وہ ہر شاپ میں گھوم گھوم کر دیکھ رہی تھیں مگر پھر بھی انہیں کُچھ پسند نہیں آرہا تھا اور آخر کار درید نے ہی ایک شاپ سے دونوں کو اپنی پسند کے ڈریس لے کے دیئے تھے۔۔۔بقول اس کے کہ اگر وہ پوری رات بھی یہاں خوار ہوتا رہا پھر بھی ان کو کُچھ پسند نہیں آنا تھا اور اس کی حالت دیکھ کر دونوں پاگلوں کی طرح ہنسی تھیں۔۔۔۔ پھر وہ انہیں ریسٹورینٹ لے آیا تھا اور انییں آرڈر کرنے کو کہا تھا ۔۔،۔۔ وہ دونوں مینیو کارڈ سے کھانا سیلیکٹ کر رہی تھیں جب کہ درید ساوی کو دیکھنے میں بزی تھا ۔۔۔۔۔ اس کے لگاتار دیکھنے کا ہی اثر تھا کہ ساوی نے بے چین ہو کر نظریں اُٹھائیں تھیں اور درید کو اپنی طرف دیکھتا پا کر بے اختیار دوبارہ نظریں جھکا گئی تھی۔۔۔ اس کی آنکھوں میں جھانکنا اس کے بسس کی بات نہیں تھی جہاں شوق و جزبات کا ایک جہان آباد تھا اور ساوی کو ڈر تھا کہ وہ اس جہان میں ڈوب ہی نہ جائے ۔۔۔۔۔۔۔ہائے ساوی کے معصوم سے ڈر۔۔۔۔ ساوی بار بار پہلو بدل رہی تھی مگر درید تھا کہ جان بوجھ کر اسے نروس کر رہا تھا ۔۔۔ درید بھائی آپ نہ دیکھیں نہ ۔۔۔افرحہ نے شرارت سے اسے ٹوکا تھا۔۔۔۔ کک کیا نہ دیکھوں گُڑیا۔۔۔۔ وہ ہڑ بڑا سا گیا۔۔۔۔ اپنی چڑیا کو مت دیکھیں نہ اس طرح آپ اسے ایسے دیکھیں گے تو کھانا کیسے سیلیکٹ کرے گی وہ کہ کیا آرڈر کرنا ہے ۔۔۔ ایسے تو ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔۔۔۔وہ شرارت سے اسے چھیڑتے ہوئے بولی۔۔۔۔ نن نہیں میں تو نہیں دیکھ رہا اسے ۔۔۔۔۔ وہ کر تو رہی ہے سیلیکٹ اور جان بوجھ کر دیر کر رہی ہے۔۔۔۔۔ وہ بوکھلائے لہجے میں بولا ۔۔ آپ رہنے ہی دیں مجھے سب پتہ ہے ۔۔۔۔۔۔ وہ معنی خیزی سے بولی۔۔۔۔ کیا پتہ ہے۔۔۔۔۔ وہ الجھن بھرے لہجے میں پوچھ رہا تھا ۔۔۔ یہی کہ ساوی اب تو میری دوست ہے بہت جلد بھابھی بھی بن جائے گی۔۔۔۔۔ اس کی بات سن کے پہلے تو وہ اس کی بات پہ غور کرتا رہا اور جب بات سمجھ میں آئی تو زندگی سے بھر پور قہقہہ لگا اُٹھا کہ آس پاس کے ٹیبل پہ بیٹھی لڑکیاں بھی اس کی بھرپور ہنسی کی طرف متوجہ ہوگیئیں ۔۔۔۔۔۔ اچھا تو میری بہن کو اعتراض ہے؟؟؟ وہ ساوی کو دیکھتا ہوا پوچھ رہا تھا جو پہلے تو افرحہ کی باتوں پہ ہنسی دبا رہی تھی اور دونوں کی باتوں پہ شرم سے سرخ ہوئی جا رہی تھی۔۔۔۔۔ نہیں بھائی میں تو بہت خوش ہوں آپ دونوں کے لیے۔۔۔۔ وہ خوشی سے بھر پور لہجے میں بولی۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ ساوی اسے ٹوکتی ۔۔۔۔ کوئی چیئر گھسیٹ کر افرحہ کے ساتھ والی کرسی پہ بیٹھا۔۔۔۔۔ واہ ایک کے ساتھ ایک فری والا معاملہ چل رہا ہے یہاں تو۔۔۔۔۔ اشعر جو کہ ان کو دیکھ چکا تھا اپنی ٹیبل سے اُٹھ کے ان کے پاس آ کے بیٹھتا ہوا بولا ۔۔۔ کیا بکواس کر رہے ہو تم۔۔۔۔۔۔ درید بھڑکتے ہوئے بولا ۔۔ صحیح تو کہہ رہا ہوں لوگوں کو ایک نہیں ملتی اور تم یہاں دو دو کو لے کے بیٹھے ہو ۔۔۔۔۔ وہ افرحہ اور ساوی کو باری باری دیکھتا ہوا طنزیہ لہجے میں بولا۔۔۔۔ اشعر اپنی حد میں رہو ۔۔۔۔۔ بہن ہے وہ میری اور خبردار جو آج کے بعد ایسی بکواس کی تو۔۔۔۔ ورنہ مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہو گا۔۔۔وہ اسے وارن کرتے ہوئے بولا ۔۔۔ اوہ اچھا اتنی جلدی اتنی بڑی بہن بھی مل گئی تمہیں واہ۔۔۔۔ وہ ہنوز اسے غصہ دلا رہا تھا ۔۔۔ اشعر بھائی یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں یہ افرحہ ہے میری دوست اور اب ہمارے ساتھ ہی رہتی ہے ۔۔۔۔اور آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ آپ اس طرح سے الزام لگائیں ۔۔۔۔ مجھے نہیں پتہ تھا آپ کی سوچ اتنی گھٹیا ہے۔۔۔۔۔ ساوی سے برداشت نہ ہوا تو وہ بول پڑی۔۔۔ زبان کو لگام دو اساورہ۔۔۔ بڑا ہوں میں تم سے تمیز سے بات کرو۔۔۔۔وہ اپنے بڑا ہونے کا رعب جماتے بولا۔ بڑے ہو تو بڑوں والی حرکتیں بھی کرو یہ چیپ حرکتیں تمہیں سوٹ نہیں کرتیں ۔۔۔۔ افرحہ ساوی اُٹھو گاڑی میں چل کے بیٹھو میں بل پے کر کے آتا ہوں ۔۔۔ وہ اشعر سے کہتا ان دونوں سے مخاطب ہوا اور وہ دونوں سر ہلاتے باہر چلی گئیں ۔۔۔۔ آج تو میں نے تمہاری گھٹیا بکواس برداشت کر لی ہے کیونکہ میں یہاں کوئی تماشہ نہیں چاہتا تھا مگر آئیندہ اگر ایسا ہوا تو اپنی شکل پہچاننے کے لائق نہیں رہو گے۔۔۔۔ وہ اپنا والٹ اٹھاتا اسے وارن کرنے لگا۔۔۔۔ کون کس قابل نہیں رہے گا یہ تو وقت بتائے گا دھیان رکھنا جانتے نہیں ہو کس کو چھیڑ بیٹھے ہو تم ۔۔۔۔۔اشعر جواباً غصے سے گویا ہوا ۔۔۔ جان تو میں چکا ہوں تمہیں بھی۔۔۔۔ اور تمہاری اوقات کو بھی۔۔۔۔ وہ اس پر ایک استہزایہ نظر ڈالتا بل پے کرنے چلا گیا۔۔۔۔ اور پیچھے اشعر اس کی باتوں پہ کڑھ کے رہ گیا۔۔۔


وہ بل پے کر کے گاڑی میں آیا تو افرحہ رو رہی تھی جبکہ ساوی اسے چپ کرانے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی وہ افرحہ کے پاس پچھلی سیٹ پر تھی۔۔۔ افرحہ بچے کیا ہوا کیوں رو رہی ہو تم؟؟؟ شکر ہے آپ آ گئے یہ تب سے روئے جا رہی ہے اسے لگتا ہے یہ سب اس کی وجہ سے ہوا ہے اب چپ بھی نہیں کر رہی۔۔۔۔ وہ پریشانی سے بتا رہی تھی اور اس کی بات سن کے وہ ٹھنڈا سانس بھر کر رہ گیا۔۔۔۔ افرحہ بچے ادھر دیکھو۔۔۔۔ تمہاری وجہ سے کُچھ نہیں ہوا اس کی فطرت ہی ایسی ہےاسے عادت ہے ایسی چیپ حرکتیں کرنے کی چپ کرو اب بلکل نہیں رونا ۔۔۔۔۔۔وہ اسے تسلی دیتا بول رہا تھا۔۔۔۔۔ افرحہ اب چپ ہو گئی تھی مگر وقفے وقفے سے ہچکیاں لے رہی تھی۔۔۔ اپنے بابا کی موت کے بعد سے وہ حساس ہو گئی تھی ہر چھوٹی بات پہ رو پڑتی ۔۔اس کے چپ ہونے پہ ساوی نے سکون کا سانس لیا۔۔۔۔ مگر اشعر بھائی نے ایسا کیوں کیا وہ ایسے تو نہیں ہیں مجھے بلکل اچھی نہیں لگی ان کی بات۔۔۔۔۔ ساوی الجھے ہوئے لہجے میں بولی۔۔۔ اچھی تو مجھے بھی نہیں لگی ۔۔۔ مگر ہم کسی کے اندر جھانک تو نہیں سکتے نہ کہ وہ کیسا ہے ۔۔۔۔۔ اب اشعر کو ہی دیکھ لو بغیر کسی وجہ کے اتنی بڑی بات کر گیا ۔۔۔۔۔۔درید نے جواب دیا ۔۔ میں ماما کو بتاوں گی یہ سب پھر وہ اچھے سے ان کی کلاس لیں گی۔۔۔۔۔۔۔ وہ غصے سے بولی۔۔ نہیں تم گھر میں کُچھ نہیں بتاو گی میں نہیں چاہتا کہ وہ ہریشان ہوں تم سمجھ رہی ہو نا ۔۔۔۔۔۔ وہ اسے تاکید کرتا بولا ۔۔۔ جی سمجھ گئی۔۔۔۔ وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔۔۔۔۔


ان کے پیپرز ختم ہوئے ایک ہفتہ ہو گیا تھا اور اب راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔۔۔۔ رات کے بارہ بج رہے تھے مگر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی آج اسے اپنے ماں بابا کی شدت سے یاد آرہی تھی دونوں کی تصویروں کو گلے سے لگائے وہ بے آواز آنسو بہا رہی تھی۔۔۔ اسے اس گھر میں کوئی تکلیف نہیں تھی سب اس کا ایک دوسرے سے بڑھ کر خیال رکھتے تھے مگر پھر بھی اسے اپنے ماں باپ کی یاد ہونہی بے حال کر دیتی تھی۔۔۔۔ روتے روتے اس کا گلا خشک ہو گیا اس نے پانی پینے کے لیے سائیڈ ٹیبل پہ پڑے جگ کی طرف ہاتھ بڑھایا مگر وہ خالی تھا وہ پانی لینے باہر کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔۔ لاونج سے گزر کر وہ کچن میں آئی اور پہلے گلاس میں پانی پیا اور پھر جگ بھر کر واپس مڑ گئی ۔۔۔۔ لاونج سے گُزرتے ہوئے اس کی نظر کھڑکی پہ پڑی جہاں سے چاند کی روشنی اندر آرہی تھی۔۔۔۔ وہ جگ کو ٹیبل پہ رکھتی اس طرف بڑھ گئی۔۔۔ اور جا کہ کھڑکی میں کھڑی ہوگئی باہر کا نظارہ بہت دلکش تھا چاند کی چاندنی ہر طرف بکھری ہوئی تھی اور ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ وہ کھڑکی میں کھڑی ہوئی تو ہوا کے جھونکے اس سے ٹکرائے اور اسے سرور سا محسوس ہوا وہ وہیں آنکھیں بند کر کے کھڑی ہو گئی ارد گرد سے بے نیاز۔۔۔۔۔۔ اچانک مین گیٹ سے ایک بیگ اوپر سے ہوتا ہو اندر کی طرف گرا۔۔۔اس کے بعد ایک ہیولہ سا گیٹ پھلانگ کر اندر کودا ۔۔۔ پھر اس نے اپنے کپڑے جھاڑے اور اپنا بیگ اُٹھایا وہ لان کی طرف بڑھا اس سے پہلے کہ وہ پائپ کے ذریعے اوپر چڑتا اس کی نگاہ اوپر لاونج کی کھڑکی پر پڑی اور وہیں اٹک گئی۔۔۔۔۔ سفید کلر کے نائٹ ڈریس میں ملبوس اس وقت وہ کوئی سفید پری لگ رہی تھی۔۔آنکھیں بند کیے چہرہ اوپر اٹھائے جیسے وہ پری چاند سے مخاطب تھی۔۔۔۔ چہرے پہ چاند کی روشنی پڑ رہی تھی اور چاند کی چاندنی میں وہ چہرہ نور کی طرح چمک رہا تھا۔۔۔۔۔وہ یک ٹک اسے دیکھے گیا چونکا تو تب جب بیگ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کے نیچے گرا۔۔۔۔۔ بھٹکتی روح۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بڑبڑایا اس نے بیگ کندھے پہ ڈالا اور پائپ کے ذریعے اوپر پہنچا ۔۔۔۔اوپر پہنچ کے اس نے آہستہ سے بیگ کمرے میں رکھا یہ کمرہ ساوی کے کمرے سے ایک کمرہ چھوڑ کے تھا اور درمیان میں وہ کمرہ تھا جو کہ افرحہ کا تھا۔۔۔۔ بیگ رکھ کے وہ واپس مڑا اور نیچے گیا وہ ابھی تک ویسے ہی کھڑی تھی وہ دبے قدموں چلتا بلکل اس کے پیچھے جا کے کھڑا ہو گیاکہ وہ اگر مڑتی تو اس سے ٹکرا جاتی۔۔۔۔ ہائے بھٹکتی روح۔۔۔۔۔وہ اس کی طرف جھک کے کان میں سر گوشی کرتا ہوا بولا۔۔۔ اور وہ جو سکون سے کھڑی تھی اس ماحول کے طلسم میں گم۔۔۔۔ ایک دم چونکی خوف سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے پہلا خیال اسے کسی بھوت کا ہی آیا جو ااے بھی بھٹکتی روح سمجھ رہا تھا۔۔۔۔۔وہ پلٹی تو ایکدم اس سے ٹکرا گئی وہ گر جاتی اگر وہ اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کے اسے سنبھال نہ لیتا۔۔ اس سے پہلے کہ اس کی چیخ نکلتی وہ اس کے منہ پہ اپنا بھاری ہاتھ رکھ چکا تھا۔۔۔۔ وہ خوف سے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتی رہ گئی جس کا صرف آدھا چہرہ ہی نظر آرہا تھا اس نے بلیک ہڈی پہنی تھی جس کی کیپ نے اس کا آدھا چہرہ ڈھانپ رکھا تھا اور صرف ہونٹ ، تھوڑی اور ناک ہی نظر آرہے تھے۔۔۔۔۔وہ مضبوطی سے اسے تھامے کھڑا تھا جیسے چھوڑا تو وہ غائب ہو جائے گی البتہ س کے منہ سے اپنا ہاتھ ہٹا لیا تھا۔۔۔۔۔ کک کون ہو تتت تم؟؟؟؟ وہ ہکلاتے ہو پوچھ رہی تھی۔۔۔۔ مممم میں بب بھوت ہوں بھٹکتی روح۔۔۔۔ اب بتاؤ تتت تم کک کون ہو۔۔۔۔۔ وہ اس کی نقل کرتا ہکلا کر بولا۔ مم میں لل لڑکی ہوں۔۔۔وہ بوکھلا کر الٹا بول گئی۔۔۔ وہ تو مجھے بھی دکھ رہا ہے کہ تم لڑکی ہی ہو۔۔۔۔۔میں تمہارا نام پوچھ رہا ہوں اور یہاں کیا کر رہی ہو تم؟؟؟؟ وہ اسے سر سے پیر تک دیکھتا معنی خیزی سے بولا اور وہ اس کی نظروں کا زاویہ دیکھ کے شرم اور غصے سے سرخ ہوگئی۔۔۔۔۔ چچ چھوڑو مجھے ۔۔۔۔۔وہ اس کی گرفت میں کسمساتی ہوئی بولی۔۔۔۔۔۔ پہلے جو پوچھا ہے وہ بتاو ورنہ ساری رات ایسے ہی کھڑا رکھوں گا۔۔۔۔۔۔اب کی بار وہ اسے ڈراتا یوا بولا۔۔۔۔ نن نہیں ممم بتاتی ہوں بسسس مجھے چھوڑ دو۔۔۔۔۔وہ روتے ہوئے بولی۔۔۔ ہاں ہاں بولو میں سن رہا ہوں۔۔۔۔وہ احسان کرنے والے انداز میں بولا۔۔۔۔ مم اا افف افرحہ ہوں ساوی کی دد دوست اور ممم میں اب یہیں رہتی ہوں۔۔۔۔وہ اب مسلسل رو رہی تھی۔۔۔ افرحہ کی بات سن کے اُس نے جھٹ سے ہڈی اپنے چہرے سے ہٹائی۔۔۔اور اس کے چہرے کو دیکھنے لگا جو آنسوں سے بھرا ہوا تھا ۔۔۔۔ شایان نے اسے تب ہی دیکھا تھا جب ساوی میٹرک میں تھی اس کے بعد شایان لندن چلا گیا تھا اور تب سے اب تک واپس نہیں آیا تھا اور اسی لیے جب اس نے اسے دیکھا تو وہ پہچان نہیں پایا تھا وہ پہلے سے بہت مختلف تھی۔ .
آنکھیں کھولو۔۔۔۔۔اس نے بے ساختہ کہا۔۔ افرحہ نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں اور اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔۔۔۔اور وہ اس کی آنسووں سے بھری بڑی بڑی گہری ہیزل گرین آنکھوں میں کھو کر رہ گیا جس کو آنکھوں کا کلر اپنی ماں سے ملا تھا گورا رنگ، تیکھی چھوٹی سی ناک، معصوم سے نین نقش ، بڑی بڑی آنکھیں اور آنسووں سے بھری جھیل ۔۔۔۔ وہ اپنی گرے آنکھیں اس کی ہیزل گرین آنکھوں میں گاڑے کھڑا تھا۔۔۔۔۔ جیسے اس سے زیادہ ضروری کوئی کام ہی نہ ہو ۔۔۔۔۔۔ آآ پپپ آپ یہی یہاں۔۔۔۔وہ ہڑبڑاتی ہوئی بولی۔۔ وہ اسے اس وقت یہاں دیکھ کے شاکڈ رہ گئی تھی اور جس پوزیشن میں وہ کھڑی تھی اس کی بانہوں کے حصار میں ۔۔۔۔۔ وہ اپنی جگہ جز بز ہو کے رہ گئی تھی۔۔۔ ہاں میں یہاں ۔۔۔۔۔ یہاں نہیں آوں گا تو کہاں جاوں گا ؟؟ سوچا تھا سب کو سرپرائز دوں گا مگر یہاں تو میں ہی سرپرائز ہو گیا ہوں اب تو تم واقعی لڑکی ہو ورنہ پہلے تو بچی ہوتی تھی۔۔۔۔ وہ اسے ایک بار پھر سر سے پاؤں تک دیکھتا معنی خیز لہجے میں بولا۔۔۔ اور وہ اپنے آپ میں سمٹ کر رہ گئی۔۔۔۔۔ پلیز مجھے چھوڑیں ۔۔۔۔۔وہ ایک بار پھر اس کی گرفت میں مچلنے لگی۔۔۔ اگر نہ چھوڑوں تو۔۔۔۔۔ وہ سرسری سا اس کی طرف جھکتا پوچھ رہا تھا۔۔ نن نہیں پلیز شایان بھائی مجھے چھوڑ دیں ۔۔۔۔ وہ منت کرتے بولی۔۔۔ اور وہ جو اس کےحسن کے سحر میں کھویا ہوا تھا اس کے منہ سے بھائی کا لفظ سن کے سارا سحر ختم ہو گیا۔۔۔۔۔ کیا کہا تم نے؟؟؟ اس نے تصدیق چاہی۔۔۔۔۔ مجھے چھوڑیں۔۔۔۔ نہیں پورا فقرہ کیا بولا تھا؟؟؟ شایان بھائی مجھے چھوڑ دیں۔۔۔۔۔ اب کی بار وہ پورا بولی۔۔۔۔ اور اسے ایک لمحے کا بھی موقع دیے بغیر وہ اسے دیوار سے لگاتا اس پہ جھک گیا اور اس روتی مچلتی لڑکی کی سانسیں روک گیا۔۔۔۔۔اور جب اسے سانس لینے میں دشواری ہونے لگی تو اس کی جان بخشی ۔۔۔ بھائی تو میں نے تمہیں تب نہیں کہنے دیا تھا جب تم بچی تھی اور اب تو تم لڑکی ہو نا۔۔۔۔۔ تو اب کیسے اجازت دوں ۔۔۔آئندہ تمہارے منہ سے یہ لفظ نہ سُنوں ورنہ یہ تو بہت چھوٹی سی سزا دی ہے اگلی بار ایسا ہوا تو اپنی اور تمہاری جان ایک کر دوں گا اب جاو جا کے سو جاؤ ۔۔۔۔ وہ اس پر جھکا درشتی سے بول رہا تھا ۔۔۔۔۔ اور وہ حیرت کا مجسمہ بنی دیوار کے ساتھ لگی کھڑی تھی وہ اسے ایسے ہی چھوڑ کر چلا گیا اس کے جانے کے بعد اس کا ہاتھ میکانکی انداز پہ اپنے ہونٹوں پہ گیا جہاں اس کا لمس محسوس ہو رہا تھا مگر اب ہونٹوں پہ ہاتھ لگانے سے اسے وہاں خون کی بوندیں محسوس ہوئیں ۔۔۔۔۔۔ اتنی شدت ۔۔۔۔۔ وہ سوچ کر رہ گئی اسے شایان سے خوف محسوس ہو رہا تھا اور یہ بات وہ کسی سے کہہ بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔۔وہ لڑکھڑاتے قدموں سے اپنے روم کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔ اب وہ اس وقت کو کوس رہی تھی جب وہ روم سے رات کے اس پہر باہر آئی تھی۔۔۔۔۔۔پانی کا جگ وہیں ٹیبل پہ دہائی دیتا رہ گیا تھا اور خود وہ آکے بستر پہ ڈھے گئی تھی ۔۔۔۔۔۔سوچتے سوچتے کب وہ نیند کی وادیوں میں اتری اسے پتہ ہی نہ چلا۔۔۔۔۔۔۔۔

   0
0 Comments